بس ایک ہی کیفیت دل صبح مسا ہے
ہر لمحہ مری عمر کا زنجیر بہ پا ہے
میں شہر کو کہتا ہوں بیاباں کہ یہاں بھی
سایہ تری دیوار کا کب سر پہ پڑا ہے
ہے وقت کہ کہتا ہے رکوں گا نہ میں اک پل
تو ہے کہ ابھی بات مری تول رہا ہے
میں بزم سے خاکستر دل لے کے چلا ہوں
اور سامنے تنہائی کے صحرا کی ہوا ہے
آواز کا تیشہ ہے نہ خاموش تکلم
تالا جو زباں پر تھا وہ اب دل پہ پڑا ہے
میں ساتھ لئے پھرتا ہوں سامان ہلاکت
رگ رگ میں مری زہر وفا دوڑ رہا ہے
کیا کیا ہیں تمنائیں دل خاک بسر میں
یہ قافلہ ویرانے میں کیوں ٹھہرا ہوا ہے
غزل
بس ایک ہی کیفیت دل صبح مسا ہے
عرش صدیقی