بس ایک بوند تھی اوراق جاں میں پھیل گئی
ذرا سی بات مری داستاں میں پھیل گئی
ہوا نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ لو میری
تمام شش جہت جسم و جاں میں پھیل گئی
وہ خواب تھا کہ کھلا تھا دریچۂ شب ہجر
ترے وصال کی خوشبو مکاں میں پھیل گئی
جو اس کے بعد ہوا اس سے بے خبر تھے سب
ہوا نے کچھ نہ کہا بادباں میں پھیل گئی
کھلا کہ وہم تھا آب و سراب کی تمیز
پیاسی دھوپ تھی آب رواں میں پھیل گئی
میں اس کے طرز تخاطب کا زہر پی تو گیا
مگر عجیب سی تلخی زباں میں پھیل گئی
زیاں نصیب شعار وفا سرشت میں ہے
یہ بات کیسے صف دشمناں میں پھیل گئی
غزل
بس ایک بوند تھی اوراق جاں میں پھیل گئی
صدیق مجیبی