بس دل کا غبار دھو چکے ہم
رونا تھا جو کچھ سو رو چکے ہم
تم خواب میں بھی نہ آئے پھر ہائے
کیا خواب میں عمر کھو چکے ہم
ہونے کی رکھیں توقع اب خاک
ہونا تھا جو کچھ سو ہو چکے ہم
کہسار پہ چل کے روئیے اب
صحرا تو بہت ڈبو چکے ہم
پھر چھیڑا حسنؔ نے اپنا قصہ
بس آج کی شب بھی سو چکے ہم
غزل
بس دل کا غبار دھو چکے ہم
میر حسن