برون در نکلتے ہی بہت گھبرا گیا ہوں
میں جس دنیا میں تھا کیوں اس سے واپس آ گیا ہوں
کوئی سیارہ میرے اور اس کے درمیاں ہے
میں کیا تھا اور دیکھو کس طرح گہنا گیا ہوں
مجھے راس آ نہ پائیں گے یہ پانی اور مٹی
کہ میں اک اور مٹی سے ہوں اور مرجھا گیا ہوں
میں پتھر چوم کر تحلیل ہو جاتا ہوا میں
مگر زندہ ہوں اور ہیہات واپس آ گیا ہوں
کہاں میں اور کہاں دربار کا جہل و تکبر
مگر اک اسم کی تسبیح جس سے چھا گیا ہوں
غزل
برون در نکلتے ہی بہت گھبرا گیا ہوں
محمد اظہار الحق