برسوں میں تجھے دیکھا تو احساس ہوا ہے
ہر زخم تری یاد کا اندر سے ہرا ہے
وہ کون تھا کس سمت گیا ڈھونڈ رہا ہوں
زنجیر در دل کوئی کھٹکا کے گیا ہے
جی چاہے اسے وقت کے ہاتھوں سے اڑا لے
جو روح کی خاموش گپھاؤں میں ملا ہے
پتھر کے صنم پوجو کہ مٹی کے خداوند
ہر باب کرم دیر ہوئی بند پڑا ہے
پوچھو نہ مرے عہد کے انساں کی حکایت
تنہائی کے صحراؤں میں حیران کھڑا ہے
غزل
برسوں میں تجھے دیکھا تو احساس ہوا ہے
زبیر رضوی