برسوں گھسا پٹا ہوا دروازہ چھوڑ کر
نکلوں نہ کیوں مکان کی دیوار توڑ کر
پانی تو اب ملے گا نہیں ریگزار میں
موقع ہے خوب دیکھ لو دامن نچوڑ کر
اب دوستوں سے کوئی شکایت نہیں رہی
دن بھی چلا گیا مجھے جنگل میں چھوڑ کر
تعمیر سے بلند ہے تخریب کا مقام
اک سے ہزار ہو گیا آئینہ توڑ کر
اپنے بدن کے ساتھ رہوں تو عذاب ہے
مر جاؤں گا میں جاؤں اگر اس کو چھوڑ کر
کیوں سر کھپا رہے ہو مضامیں کی کھوج میں
کر لو جدید شاعری لفظوں کو جوڑ کر
غزل
برسوں گھسا پٹا ہوا دروازہ چھوڑ کر
محمد علوی