EN हिंदी
برسوں بعد ملا تو اس نے ہم سے پوچھا کیسے ہو | شیح شیری
barson baad mila to usne humse puchha kaise ho

غزل

برسوں بعد ملا تو اس نے ہم سے پوچھا کیسے ہو

وقار فاطمی

;

برسوں بعد ملا تو اس نے ہم سے پوچھا کیسے ہو
شہر نگاراں کے مرکز تھے تنہا تنہا کیسے ہو

وہ کچھ میرے درد کو بانٹے میں کچھ اس کے غم لے لوں
ایسا ہو تو کیا اچھا ہو لیکن ایسا کیسے ہو

چہرے پر جو ہریالی تھی وہ شہروں میں زرد ہوئی
گاؤں کا مکھیا پوچھ رہا ہے میرے بھیا کیسے ہو

اٹھتی ہوئی موجوں کے نیچے کتنا گہرا پانی ہے
ہم جیسے کچھ لوگ نہ ڈوبیں تو اندازہ کیسے ہو

تیز و تند ہوا کے ہاتھوں کیا بیتے یہ بات الگ
شاخیں جب تک ساتھ نہ چھوڑیں پتا پیلا کیسے ہو