EN हिंदी
برسوں بعد جو دیکھا اس کو سر پر الجھا جوڑا تھا | شیح شیری
barson baad jo dekha usko sar par uljha joDa tha

غزل

برسوں بعد جو دیکھا اس کو سر پر الجھا جوڑا تھا

یوسف تقی

;

برسوں بعد جو دیکھا اس کو سر پر الجھا جوڑا تھا
جسم بھی تھوڑا پھیل گیا تھا رنگ بھی کچھ کچھ میلا تھا

تم بھی جس کو دیکھ رہے تھے وہ جو ایک اکیلا تھا
دبلا پتلا الجھا حیراں ارمانوں کا میلا تھا

جھیل کا شیشہ نیلے بادل کے ہونٹوں سے بھیگا تھا
دور تلک شاخوں کے نیچے سبز اندھیرا پھیلا تھا

بن دستک بھی کھولے رکھے ہم نے اپنے بند کواڑ
لیکن ہائے بھاگ ہمارا کوئی نہ ملنے آیا تھا

تم یہ سمجھے دیکھ رہی تھی تم کو لیکن تم کیا جانو
روپ تمہارا ہی تھا ویسے روپ میں کس کا سایا تھا