EN हिंदी
برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی | شیح شیری
barq mera aashiyan kab ka jala kar le gai

غزل

برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی

شیخ ابراہیم ذوقؔ

;

برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی
کچھ جو خاکستر بچا آندھی اڑا کر لے گئی

اس کے قدموں تک نہ بیتابی بڑھا کر لے گئی
ہائے دو پلٹے دئیے اور پھر ہٹا کر لے گئی

ناتوانی ہم کو ہاتھوں ہاتھ اٹھا کر لے گئی
چیونٹی سے چیونٹی دانہ چھڑا کر لے گئی

صبح رخ سے کون شام زلف میں جاتا تھا آہ
اے دل شامت زدہ شامت لگا کر لے گئی

خون سے فرہاد کے رنگیں ہوا دامان کوہ
کیوں نہ موج شیر یہ دھبا چھڑا کر لے گئی

تم نے تو چھوڑا ہی تھا اے ہم رہان قافلہ
لیکن آواز جرس ہم کو جگا کر لے گئی

نوک مژگاں جب ہوئی سینہ فگاروں سے دو چار
پارہ ہائے دل سے گلدستہ بنا کر لے گئی

دیکھی کچھ دل کی کشش لیلیٰ کہ ناقے کو ترے
سوئے مجنوں آخرش رستہ بھلا کر لے گئی

واہ اے سوز دروں کوچے میں اس کے برق آہ
رات ہم کو ہر قدم مشعل دکھا کر لے گئی

وہ گئے گھر غیر کے اور یاں ہمیں دم بھر کے بعد
بدگمانی ان کے گھر سو گھر پھرا کر لے گئی

جو شہید ناز کوچے میں تمہارے تھا پڑا
کیا کہوں تقدیر اسے کیونکر اٹھا کر لے گئی

دشت وحشت میں بگولا تھا کہ دیوانہ ترا
روح مجنوں بہر استقبال آ کر لے گئی

آگ میں ہے کون گر پڑتا مگر پروانے کو
آتش سوز محبت تھی جلا کر لے گئی

اے پری پہلو سے میرے کیا کہوں تیری نگاہ
دل اڑا کر لے گئی یا پر لگا کر لے گئی

ذوقؔ مر جانے کا تو اپنے کوئی موقع نہ تھا
کوئے جاناں میں اجل ناحق لگا کر لے گئی