برگ صدا کو لب سے اڑے دیر ہو گئی
ہم کو بھی اب تو خاک ہوئے دیر ہو گئی
اب ساحلوں پہ کس کو صدا دے رہے ہو تم
لمحوں کے بادبان کھلے دیر ہو گئی
اے حسن خود پرست ذرا سوچ تو سہی
مہر و وفا سے تجھ کو ملے دیر ہو گئی
تیرا وصال خیر اب اک واقعہ ہوا
اب اپنے آپ سے بھی ملے دیر ہو گئی
صدیوں کی ریت ڈھانپ کر آسودہ ہو گئے
سر کو ہمارے تن سے کٹے دیر ہو گئی
صرصر ہو یا صبا ہو کہ ہوں تیز آندھیاں
ہم کو فصیل شب پہ جلے دیر ہو گئی
تیری گلی کے موڑ پہ پہنچے تھے جلد ہم
پر تیرے گھر کو آتے ہوئے دیر ہو گئی
اک دور تھا شناسؔ صدا تھی مری بلند
اور اب تو میرے ہونٹ سلے دیر ہو گئی
غزل
برگ صدا کو لب سے اڑے دیر ہو گئی
فہیم شناس کاظمی