برگ بھر بار محبت کا اٹھایا کب تھا
تم نے سینے میں کوئی درد بسایا کب تھا
اب جو خود سے بھی جدا ہو کے پھرو ہو بن میں
تم نے بستی میں کوئی دوست بنایا کب تھا
نقد احساس کہ انساں کا بھرم ہوتا ہے
ہم نے کھویا ہے کہاں آپ نے پایا کب تھا
شہر کا شہر امڈ آیا ہے دل جوئی کو
دشمنوں نے بھی تری طرح ستایا کب تھا
سعی صحرائے وفا سیر گلستاں کب تھی
دھوپ ہی دھوپ تھی ہر سو کوئی سایا کب تھا
عکس کیا کیا تھے نگاہوں میں فروزاں عالؔی
پر یہ انداز نظر وقت کو بھایا کب تھا
غزل
برگ بھر بار محبت کا اٹھایا کب تھا
جلیل عالیؔ