برف کے پھول کھلے دھوپ کے دانے نکلے
اب کے موسم میں سبھی خواب سہانے نکلے
پھر مری یاد تجھے چین نہ لینے دے گی
پھر تری بزم میں میرے ہی فسانے نکلے
دو قدم بڑھتے ہی خود اپنا پتا کھو بیٹھے
جب بھی ہم تجھ کو تری یاد دلانے نکلے
ان کو ہر موڑ پہ خوشیوں کے دفینے ہی ملے
میرے حصے میں فقط غم کے خزانے نکلے
میرا جلتا ہوا گھر دیکھ کے ہمسائے مرے
گھر سے نکلے تو مگر اشک بہانے نکلے
زندگی تو نے ہمیں اور بھی مقروض کیا
جب بھی ہم لوگ ترا قرض چکانے نکلے
غزل
برف کے پھول کھلے دھوپ کے دانے نکلے
ناز قادری