برائے نام سہی سائباں ضروری ہے
زمین کے لیے اک آسماں ضروری ہے
تعجب ان کو ہے کیوں میری خود کلامی پر
ہر آدمی کا کوئی راز داں ضروری ہے
ضرورت اس کی ہمیں ہے مگر یہ دھیان رہے
کہاں وہ غیر ضروری کہاں ضروری ہے
کہیں پہ نام ہی پہچان کے لیے ہے بہت
کہیں پہ یوں ہے کہ کوئی نشاں ضروری ہے
کہانیوں سے ملال ان کو نیند آنے لگی
یہاں پہ اس لیے وہ داستاں ضروری ہے
غزل
برائے نام سہی سائباں ضروری ہے
صغیر ملال