بقا صدف کی گہر کے سوا کچھ اور نہیں
وفا شعور بشر کے سوا کچھ اور نہیں
غلط غلط کہ محبت فریب ہستی ہے
یہ ربط خاص اثر کے سوا کچھ اور نہیں
شعاع مہر منور میں ماہ تاباں میں
کسی کی پہلی نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ابھی جنوں کو گزرنا ہے شاہراہوں سے
جنوں کی حد ترے در کے سوا کچھ اور نہیں
وہ شام غم جو تری زندگی کا حاصل ہے
وہ شام نور سحر کے سوا کچھ اور نہیں
یہی نظام جہاں ہے یہی ہے راز بقا
ثمر حیات شجر کے سوا کچھ اور نہیں
تجھے خرد سے ہے نسبت ہمیں عزیزؔ جنوں
بقدر ظرف نظر کے سوا کچھ اور نہیں
غزل
بقا صدف کی گہر کے سوا کچھ اور نہیں
عزیز بدایونی