بنتے رہے ہیں دل میں عجب گرد باد سے
رنگوں کو آزما نہ سکے اعتماد سے
یہ اور بات آبلے ہونٹوں پہ پڑ گئے
دہلیز چوم لی ہے مگر اعتقاد سے
برسوں کی بے زبان تھکاوٹ لپٹ گئی
جب شہر دل میں لوٹ کے آئے جہاد سے
سرسوں کی چاندنی سے برہنہ درخت تک
ہر شے کی دل کشی نکھر آئی تضاد سے
کچھ خوش دہن رفیق کہیں بیچ بیچ میں
میرا بھی ذکر کرتے رہے ہیں عناد سے
پھر آج ایک شکل تراشی ہے سوچ کی
دل کی گپھا میں حرف کے کچے مواد سے
سجادؔ کوئی حیلہ کہ لو دے اٹھے یہ دل
دم گھٹ رہا ہے خون کے اس انجماد سے
غزل
بنتے رہے ہیں دل میں عجب گرد باد سے
سجاد بابر