بنتے بنتے اپنے پیچ و خم بنے
تو بنا پھر میں بنا پھر ہم بنے
ایک آنسو تھا گرا اور چل پڑا
ایک عالم تھا سو دو عالم بنے
اک قدم اٹھا کہیں پہلا قدم
خاک اڑی اور اپنے سارے غم بنے
اپنی آوازوں کو چپ رہ کر سنا
تب کہیں جا کر یہ زیر و بم بنے
آنکھ بننے میں بہت دن لگ گئے
دیکھیے کب آنکھ اندر نم بنے
زخم کو بے رہ روی میں رہ ملی
خون کے چھینٹے اڑے عالم بنے
ہم کہاں تھے اس سمے اس وقت جب
تیرے اندر کے یہ سب موسم بنے
غزل
بنتے بنتے اپنے پیچ و خم بنے
شاہین عباس