بنے یہ زہر ہی وجہ شفا جو تو چاہے
خرید لوں میں یہ نقلی دوا جو تو چاہے
یہ زرد پنکھڑیاں جن پر کہ حرف حرف ہوں میں
ہوائے شام میں مہکیں ذرا جو تو چاہے
تجھے تو علم ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا جو تو چاہے
جب ایک سانس گھسے ساتھ ایک نوٹ پسے
نظام زر کی حسیں آسیا جو تو چاہے
بس اک تری ہی شکم سیر روح ہے آزاد
اب اے اسیر کمند ہوا جو تو چاہے
ذرا شکوہ دوعالم کے گنبدوں میں لرز
پھر اس کے بعد تیرا فیصلہ جو تو چاہے
سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے
جو تیرے باغ میں مزدوریاں کریں امجدؔ
کھلیں وہ پھول بھی اک مرتبہ جو تو چاہے
غزل
بنے یہ زہر ہی وجہ شفا جو تو چاہے
مجید امجد