بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جا نکلے
یہ ہم سفر مرے کتنے گریز پا نکلے
چلے تھے اور کسی راستے کی دھن میں مگر
ہم اتفاق سے تیری گلی میں آ نکلے
غم فراق میں کچھ دیر رو ہی لینے دو
بخار کچھ تو دل بے قرار کا نکلے
نصیحتیں ہمیں کرتے ہیں ترک الفت کی
یہ خیر خواہ ہمارے کدھر سے آ نکلے
یہ خامشی تو رگ و پے میں رچ گئی ناصرؔ
وہ نالہ کر کہ دل سنگ سے صدا نکلے
غزل
بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جا نکلے
ناصر کاظمی