بند کمرے میں ہوں اور کوئی دریچا بھی نہیں
کسی دستک کا لرزتا ہوا جھونکا بھی نہیں
تیرگی اوڑھ کے آئی ہے گھٹا کی چادر
اور فانوس کوئی آہ کا جلتا بھی نہیں
کل مرے سائے میں سستائی تھی صدیوں کی تھکن
آج وہ پیڑ ہوں جس پر کوئی پتا بھی نہیں
دھوپ کے دشت کا درپیش سفر ہے مجھ کو
ساتھ دینے کو مگر کوئی پرندہ بھی نہیں
اپنا خوں راہ میں پھیلائیں لکیروں کی طرح
آنے والے نہ کہیں نقش کف پا بھی نہیں

غزل
بند کمرے میں ہوں اور کوئی دریچا بھی نہیں
پرویز بزمی