بند کمرے میں دم نہ گھٹ جائے
کھڑکیاں کھول دو ہوا آئے
آ کے سورج سروں پہ بیٹھ گیا
چھپ گئے ہیں بدن بدن سائے
اتنا دم تو کسی دئے میں نہیں
کون پاگل ہوا کو ٹھہرائے
کیا کریں لے کے ایسی بارش کو
رنگ پھولوں کا جس میں دھل جائے
کبھی تجھ کو بھی بھولنا چاہوں
کوئی شیطان ہے جو بہکائے
دشت جاں پر برس رہے ہیں رنگ
ایک آنچل فضا میں لہرائے
قید زندان خامشی میں کوئی
خود بھی تڑپے مجھے بھی تڑپائے

غزل
بند کمرے میں دم نہ گھٹ جائے
اظہار وارثی