بند ہوتی کتابوں میں اڑتی ہوئی تتلیاں ڈال دیں
کس کی رسموں کی جلتی ہوئی آگ میں لڑکیاں ڈال دیں
خوف کیسا ہے یہ نام اس کا کہیں زیر لب بھی نہیں
جس نے ہاتھوں میں میرے ہرے کانچ کی چوڑیاں ڈال دیں
ہونٹ پیاسے رہے حوصلے تھک گئے عمر صحرا ہوئی
ہم نے پانی کے دھوکے میں پھر ریت پر کشتیاں ڈال دیں
موسم ہجر کی کیسی ساعت ہے یہ دل بھی حیران ہے
میرے کانوں میں کس نے تری یاد کی بالیاں ڈال دیں
غزل
بند ہوتی کتابوں میں اڑتی ہوئی تتلیاں ڈال دیں
نوشی گیلانی