بند ہیں دل کے دریچے روشنی معدوم ہے
اب جو اپنا حشر ہونا ہے ہمیں معلوم ہے
حسب نیرنگ جہاں دل شاد یا مغموم ہے
آدمی جذبات کا حاکم نہیں محکوم ہے
اب تکلف بر طرف یہ آپ کو معلوم ہے
کیوں مرا خواب وفا تعبیر سے محروم ہے
حسن خود تڑپا کیا ہے مجھ کو تڑپانے کے بعد
سوچنا پڑتا ہے وہ ظالم ہے یا مظلوم ہے
خواب آخر خواب ہے اس خواب کا کیا اعتبار
جنت نظارہ گویا جنت موہوم ہے
ہائے یہ طرفہ مآل آرزوئے صبح نو
جس طرف نظریں اٹھاتا ہوں فضا مسموم ہے
میرے کردار وفا کی آئینہ داری بخیر
کیوں زبان دوست پر ال شاذ و کل معدوم ہے
دیکھنے کی چیز ہے یہ سحر انداز نظر
ان کا ہر مبہم اشارہ حامل مفہوم ہے
خار بھی نا مطمئن ہیں پھول بھی نا مطمئن
باغباں کے اس نظام گلستاں کی دھوم ہے
اب اسے ماحول جس قالب میں چاہے ڈھال دے
فطرتاً تو آدمی اک پیکر مفہوم ہے
جو بھری محفل میں نظروں کی ہوئی ہے گفتگو
حسن کو معلوم ہے یا عشق کو معلوم ہے
کتنی کیف آور ہے ان کی شرکت غم بھی عروجؔ
ماتم دل کی جگہ جشن دل مرحوم ہے
غزل
بند ہیں دل کے دریچے روشنی معدوم ہے
عروج زیدی بدایونی