بند ہے آج بھی ترسیل پہ راہ الفاظ
میں کہ مضمون ہوں پھر بھی ہوں تباہ الفاظ
آج اوراق نوردی ہے مقدر لیکن
کل مورخ مجھے ٹھہرائے گا شاہ الفاظ
کاش مفہوم گزیدہ کوئی پتھر ہی ملے
سنگ زاروں میں بھٹکتی ہے نگاہ الفاظ
لوگ سمجھیں گے نہ جانیں گے مری بات مگر
میرے سر آئے گا پھر بھی یہ گناہ الفاظ
ہوں وہ مفہوم جو شرمندۂ تحریر نہیں
ہے پناہوں میں مری خود ہی پناہ الفاظ
بر سر جنگ ہوں ترسیل کے میداں میں رئیسؔ
قید ابہام میں ہے پھر بھی سباہ الفاظ

غزل
بند ہے آج بھی ترسیل پہ راہ الفاظ
رئیس الدین رئیس