بند دروازے کھلے روح میں داخل ہوا میں
چند سجدوں سے تری ذات میں شامل ہوا میں
کھینچ لائی ہے محبت ترے در پر مجھ کو
اتنی آسانی سے ورنہ کسے حاصل ہوا میں
مدتوں آنکھیں وضو کرتی رہیں اشکوں سے
تب کہیں جا کے تری دید کے قابل ہوا میں
جب ترے پاؤں کی آہٹ مری جانب آئی
سر سے پا تک مجھے اس وقت لگا دل ہوا میں
جب میں آیا تھا جہاں میں تو بہت عالم تھا
جتنی تعلیم ملی اتنا ہی جاہل ہوا میں
پھول سے زخم کی خوشبو سے معطر غزلیں
لطف دینے لگیں اور درد سے غافل ہوا میں
معجزے عشق دکھاتا ہے سکندرؔ صاحب
چوٹ تو اس کو لگی دیکھیے چوٹل ہوا میں
غزل
بند دروازے کھلے روح میں داخل ہوا میں
ارشاد خان سکندر