بند آنکھیں کروں اور خواب تمہارے دیکھوں
تپتی گرمی میں بھی وادی کے نظارے دیکھوں
اوس سے بھیگی ہوئی صبح کو چھو لوں جب میں
اپنی پلکوں پہ میں اشکوں کے ستارے دیکھوں
اب تو ہر گام پہ صحرا و بیاباں میں بھی
اپنی وادی کے ہی صدقے میں نظارے دیکھوں
میں کہیں بھی رہوں جنت تو مری وادی ہے
چاند تاروں کے پڑے اس پہ میں سائے دیکھوں
مجھ کو چھو جاتی ہے آ کر جو کبھی صبح تری
ہر طرف پھولوں کے دلچسپ نظارے دیکھوں
غزل
بند آنکھیں کروں اور خواب تمہارے دیکھوں
صاحبہ شہریار