بنائی ہے تری تصویر میں نے ڈرتے ہوئے
لرز رہا تھا مرا ہاتھ رنگ بھرتے ہوئے
میں انہماک میں یہ کس مقام تک پہنچا
تجھے ہی بھول گیا تجھ کو یاد کرتے ہوئے
نظام کن کے سبب انتشار ہے مربوط
یہ کائنات سمٹتی بھی ہے بکھرتے ہوئے
کہیں کہیں تو زمیں آسماں سے اونچی ہے
یہ راز مجھ پہ کھلا سیڑھیاں اترتے ہوئے
ہمیں یہ وقت ڈراتا کچھ اس طرح بھی ہے
ٹھہر نہ جائے کہیں حادثہ گزرتے ہوئے
کچھ اعتبار نہیں اگلی نسل پر ان کو
وصیتیں نہیں کرتے یہ لوگ مرتے ہوئے
ہر ایک ضرب تو ہوتی نہیں عیاں عاصمؔ
ہزار نقش ہوئے مندمل ابھرتے ہوئے
غزل
بنائی ہے تری تصویر میں نے ڈرتے ہوئے
عاصمؔ واسطی