بنائے سب نے اسی خاک سے دیے اپنے
فلک سے ٹوٹ کے شمس و قمر نہیں آئے
گلی گلی ہو جہاں جنتوں کا گہوارہ
ہماری راہ میں ایسے نگر نہیں آئے
ہر ایک موڑ سے پوچھا ہے منزلوں کا پتہ
سفر تمام ہوا رہبر نہیں آئے
غموں کے بوجھ سے ٹوٹی ہے زندگی کی کمر
بدن پہ زخم کہیں چارہ گر نہیں آئے
گلوں کی آنچ نے جھلسا دیا بہاروں کو
چمن کو لوٹنے برق و شرر نہیں آئے
ہوئے ہیں سینۂ شب میں جو دفن افسانے
لب سحر پہ کبھی بھول کر نہیں آئے
چمک اٹھے ہیں تھپیڑوں کی چوٹ سے قطرے
صدف کی گود میں انجمؔ گہر نہیں آئے

غزل
بنائے سب نے اسی خاک سے دیے اپنے
انجم انصاری