بنا کے اک نئی منزل گزر گئے ہوتے
جدھر کوئی نہیں جاتا ادھر گئے ہوتے
پئے سکوں نہ اگر ہم ٹھہر گئے ہوتے
تو آج تا حد شمس و قمر گئے ہوتے
غم حیات سے ہم بھی جو ڈر گئے ہوتے
تو قید زیست میں رہ کے بھی مر گئے ہوتے
جو میکدے میں ذرا تم ٹھہر گئے ہوتے
نظر کے زور سے پیمانے بھر گئے ہوتے
نہ لفظ گل کو سمجھتے نہ خار کے معنی
بچا بچا کے جو دامن گزر گئے ہوتے
میں بے وفا ہوں تو وہ کیوں نظر چرا کے گئے
ذرا ملا کے نظر سے نظر گئے ہوتے
نسیم صبح کے جھونکے مری طرف کیوں آئے
جہاں بہار ہے گل ہیں ادھر گئے ہوتے
بتاتا کون نشیب و فراز راہ حیات
جو سب کی طرح سے ہم بھی گزر گئے ہوتے
بہانہ چاہیے گلشن میں ڈرنے والوں کو
نہ خار ہوتے تو پھولوں سے ڈر گئے ہوتے
میں اور کچھ نہیں کہتا مگر چمن والو
بہار آتی تو گلشن سنور گئے ہوتے
جو اتحاد کی منزل پہ ہوتے ہم شاربؔ
تغیرات کے چہرے اتر گئے ہوتے
غزل
بنا کے اک نئی منزل گزر گئے ہوتے
شارب لکھنوی