بنا کے آئینۂ تصور جہاں دل داغدار دیکھا
فراق میں لطف وصل پایا خزاں میں رنگ بہار دیکھا
تمام کاموں کا راستے پر ہمیشہ دار و مدار دیکھا
فساد طینت میں جن کی پایا ہر ایک صحبت میں خار دیکھا
سنبھالا جس دن سے ہوش ہم نے وطن کو کل چند بار دیکھا
نہ کی عزیزوں کی غم گساری نہ پھر کے اپنا دیار دیکھا
ہوئے جو مانوس کج روی سے پھرے رہ صدق و راستی سے
نہ بیٹھے اک روز وہ خوشی سے نہ کچھ بجز انتشار دیکھا
بساط عیش و طرب ہے برہم یہ ہے نشیب و فراز عالم
پیادہ ہیں ان کو دیکھتے ہم جنہیں ہمیشہ سوار دیکھا
پڑی ہے پیچھے کچھ ایسی شامت مٹا رہے ہیں نشان ثروت
بہت عزیزوں کو بہر شہرت گنواتے اپنا وقار دیکھا
جما تھا جس وقت رنگ صحبت تھا نیک و بد میں بھی لطف خلت
مگر خزاں آئی یا قیامت نہ پھول دیکھا نہ خار دیکھا
دل و جگر کو ہوا گوارا کہاں سرور شراب ہستی
ملا کبھی اضطرار میں یہ کبھی اسے بے قرار دیکھا
گیا وہ دور سیاہ مستی رہا فقط نام مے پرستی
جو ضعف پیری میں آنکھ کھولی تو کچھ طبیعت پہ بار دیکھا
حبیبؔ ہم ہم صفیر بلبل ہمیشہ تھے گلشن جہاں میں
وفا کی خو بو ہو جس میں وہ گل نظر نہ آیا ہزار دیکھا
غزل
بنا کے آئینۂ تصور جہاں دل داغدار دیکھا
حبیب موسوی