EN हिंदी
بنا کر خود کو جس نے اک بھلا انسان رکھا ہے | شیح شیری
bana kar KHud ko jis ne ek bhala insan rakkha hai

غزل

بنا کر خود کو جس نے اک بھلا انسان رکھا ہے

ولی مدنی

;

بنا کر خود کو جس نے اک بھلا انسان رکھا ہے
سکون قلب کا اپنے لئے سامان رکھا ہے

سکوں کے ساتھ جینا تو بہت دشوار ہے لیکن
زمانہ نے پہنچنا مرگ تک آسان رکھا ہے

نہ کیوں محتاط رکھوں خود کو وقت گفتگو تم سے
تمہارے دل کو میں نے آبگینہ جان رکھا ہے

پری کیوں نیند کی اترے مری پلکوں کے آنگن میں
کہ میں نے پال کر دل میں عجب بحران رکھا ہے

در و دیوار پر ہیں گھونسلے کتنے پرندوں کے
کہوں کیسے کہ قدرت نے یہ گھر ویران رکھا ہے

عطا کر سامنا کرنے کی جرأت اے خدا دل میں
مری کشتی کی قسمت میں اگر طوفان رکھا ہے

مرے اوپر ولیؔ سب سے بڑا احسان ہے اس کا
کہ جس نے شاخ دل پر پھول سا ایمان رکھا ہے