بنائے عشق ہے بس استوار کرنے تک
فلک کو چین کہاں پھر غبار کرنے تک
یہ کب کہا کہ بھروسا نہیں ہے وعدے پر
میں جی سکوں گا ترا انتظار کرنے تک
خبر نہ تھی وہ مجھے قتل کرنے آیا ہے
میں اس کو دوست سمجھتا تھا وار کرنے تک
پھر اس کے بعد کہاں امتیاز دامن و دل
جنوں ہے شوق فقط اختیار کرنے تک
وہ خوئے عشق بسی ہے ہماری فطرت میں
کہ ساتھ دیتے ہیں ہم جاں نثار کرنے تک
کچھ اس سے پہلے ہی آ جائے میری زیست کی شام
حیات وقف ہو جب دن شمار کرنے تک
مرے قبیلے کا محسنؔ یہ قول فیصل ہے
کہ ظلم ظلم ہے صبر اختیار کرنے تک
غزل
بنائے عشق ہے بس استوار کرنے تک
محسنؔ بھوپالی