EN हिंदी
بن سنور کر جو وہ بازار نکل جاتے ہیں | شیح شیری
ban-sanwar kar jo wo bazar nikal jate hain

غزل

بن سنور کر جو وہ بازار نکل جاتے ہیں

محمد آفتاب احمد ثاقب

;

بن سنور کر جو وہ بازار نکل جاتے ہیں
دیکھنے والوں کے جذبات مچل جاتے ہیں

ہر طرف ہوتا ہے مشتاق نگاہوں کا ہجوم
دل تڑپتے ہوئے سینوں سے نکل جاتے ہیں

برق گرتی ہے جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھیں
حدت حسن سے اعصاب پگھل جاتے ہیں

اچھے لگتے ہیں حسیں لوگ ہمارے دل کو
غم کے مارے ہوئے ہم لوگ بہل جاتے ہیں

سیر کو آتے ہیں گلشن میں رقیبوں کی طرح
پھول سارے وہ گلستاں کے مسل جاتے ہیں

پر کشش جتنے ہیں اس شوخ جوانی کے نقوش
سارے نقشے مرے اشعار میں ڈھل جاتے ہیں

جانے کیوں لوگ ترستے ہیں بہاروں کے لیے
ہم تو احساس کی شدت ہی سے جل جاتے ہیں

ایک ہلچل سی مچا دیتی ہے صورت ان کی
چکنی مٹی پہ مرے پاؤں پھسل جاتے ہیں

رات بھر یہ دل وحشی نہیں سوتا ثاقبؔ
سوچ کے رنگ اندھیرے میں بدل جاتے ہیں