بن کے ساحل کی نگاہوں میں تماشا ہم لوگ
نقش پا ڈھونڈ رہے ہیں سر دریا ہم لوگ
سائے چھوٹے تو پگھلنے لگے پھر دھوپ میں جسم
کاش ہوتے نہ کبھی خود سے شناسا ہم لوگ
ہم کو نفرت ہے اندھیروں سے مگر کیا کیجے
کہ اجالوں سے بھی رکھتے نہیں رشتہ ہم لوگ
کچھ نظر آتا نہیں جن میں دھندلکوں کے سوا
کرتے رہتے ہیں انہیں خوابوں کے در وا ہم لوگ
ذہن پر بار ہے آنکھوں کا مقدر ہے تھکن
خواب اگر دیکھتے بھی ہیں تو ادھورا ہم لوگ
اپنی ہی آنکھوں سے گرتے ہوئے دیکھا جس کو
ڈھونڈھتے کیوں اسی دیوار کا سایا ہم لوگ
غزل
بن کے ساحل کی نگاہوں میں تماشا ہم لوگ
علیم افسر