بن کر لہو یقین نہ آئے تو دیکھ لیں
ٹپکی ہیں پائے خواب سے صحرا کی وسعتیں
پوچھے کبھی جو آبلہ پائی کی داستاں
دریا سے کہہ بھی دیتے پہ صحرا سے کیا کہیں
چلنا ہے ساتھ ساتھ رہ زیست میں تو آؤ
نا آشنائیوں کی قبائیں اتار دیں
جس کو چھپا کے دل میں سمندر نے رکھ لیا
بادل کے منہ سے آؤ وہی داستاں سنیں
پاؤں میں کتنے تاروں کے کانٹے چبھو لیے
اس ایک آرزو میں کہ سورج سے جا ملیں
چہروں پہ چن کے پھیلے تھے قوس قزح کے رنگ
آؤ خرید لائیں کہیں سے وہ ساعتیں
بادل نے آ کے روک دیا ورنہ ایک دن
اک آگ پینے والی تھی جنگل کی الجھنیں
غزل
بن کر لہو یقین نہ آئے تو دیکھ لیں
علیم افسر