بن گیا ہے جسم گزرے قافلوں کی گرد سا
کتنا ویراں کر گیا مجھ کو مرا ہم درد سا
کیا ابھی تک اس کا رستہ روکتی ہے کوئی سوچ
میرے ہاتھوں میں ہے اس کا ہاتھ لیکن سرد سا
اس طرح گھل مل گیا آ کر نئے ماحول میں
وہ بھی اب لگتا ہے میرے گھر کا ہی اک فرد سا
جذب تھا جیسے کوئی سورج ہی اس کے جسم میں
دور سے وہ سنگ لگتا تھا بظاہر سرد سا
آج تک آنکھوں میں ہے منظر بچھڑنے کا نسیمؔ
پیرہن میلا سا اس کا اور چہرا زرد سا
غزل
بن گیا ہے جسم گزرے قافلوں کی گرد سا
افتخار نسیم