EN हिंदी
بن گیا ہے جسم گزرے قافلوں کی گرد سا | شیح شیری
ban gaya hai jism guzre qafilon ki gard sa

غزل

بن گیا ہے جسم گزرے قافلوں کی گرد سا

افتخار نسیم

;

بن گیا ہے جسم گزرے قافلوں کی گرد سا
کتنا ویراں کر گیا مجھ کو مرا ہم درد سا

کیا ابھی تک اس کا رستہ روکتی ہے کوئی سوچ
میرے ہاتھوں میں ہے اس کا ہاتھ لیکن سرد سا

اس طرح گھل مل گیا آ کر نئے ماحول میں
وہ بھی اب لگتا ہے میرے گھر کا ہی اک فرد سا

جذب تھا جیسے کوئی سورج ہی اس کے جسم میں
دور سے وہ سنگ لگتا تھا بظاہر سرد سا

آج تک آنکھوں میں ہے منظر بچھڑنے کا نسیمؔ
پیرہن میلا سا اس کا اور چہرا زرد سا