EN हिंदी
بلا سے کوئی ہاتھ ملتا رہے | شیح شیری
bala se koi hath malta rahe

غزل

بلا سے کوئی ہاتھ ملتا رہے

جوشؔ ملسیانی

;

بلا سے کوئی ہاتھ ملتا رہے
ترا حسن سانچے میں ڈھلتا رہے

ہر اک دل میں چمکے محبت کا داغ
یہ سکہ زمانے میں چلتا رہے

وہ ہمدرد کیا جس کی ہر بات میں
شکایت کا پہلو نکلتا رہے

بدل جائے خود بھی تو حیرت ہے کیا
جو ہر روز وعدے بدلتا رہے

مری بے قراری پے کہتے ہیں وہ
نکلتا ہے دم تو نکلتا رہے