بلا سے کوئی ہاتھ ملتا رہے
ترا حسن سانچے میں ڈھلتا رہے
ہر اک دل میں چمکے محبت کا داغ
یہ سکہ زمانے میں چلتا رہے
وہ ہمدرد کیا جس کی ہر بات میں
شکایت کا پہلو نکلتا رہے
بدل جائے خود بھی تو حیرت ہے کیا
جو ہر روز وعدے بدلتا رہے
مری بے قراری پے کہتے ہیں وہ
نکلتا ہے دم تو نکلتا رہے
غزل
بلا سے کوئی ہاتھ ملتا رہے
جوشؔ ملسیانی