بلا نئی کوئی پالوں اگر اجازت ہو
جنوں کو شوق بنا لوں اگر اجازت ہو
نگار خانۂ ہستی کے آئنوں میں ذرا
میں اپنا عکس سجا لوں اگر اجازت ہو
شراب حسن میں مستی ہے بے نیازی کی
خودی کے شیشے میں ڈھالوں اگر اجازت ہو
ہماری تم سے ملاقات ہو بھی سکتی ہے
میں کوئی راہ نکالوں اگر اجازت ہو
بہت دنوں سے ہیں عریاں بدن خیال مرے
ردائے حرف اڑھا لوں اگر اجازت ہو
وہ تشنگی جسے تم سلسبیل کہتے ہو
لبوں پہ میں بھی اٹھا لوں اگر اجازت ہو
نظر ظہور کے جن تجربوں سے گزری ہے
کبھی کسی کو بتا لوں اگر اجازت ہو
کسی سے دل ہی نہیں مل سکا شہابؔ تو اب
نظر تمہی سے ملا لوں اگر اجازت ہو

غزل
بلا نئی کوئی پالوں اگر اجازت ہو
عفت عباس