EN हिंदी
بلا کی دھوپ تھی میں جل رہا تھا | شیح شیری
bala ki dhup thi main jal raha tha

غزل

بلا کی دھوپ تھی میں جل رہا تھا

عین عرفان

;

بلا کی دھوپ تھی میں جل رہا تھا
بدن اس کا تھا اور سایہ مرا تھا

خرابے میں تھا اک ایسا خرابہ
جہاں میں سب سے چھپ کے بیٹھتا تھا

بہت نزدیک تھے تصویر میں ہم
مگر وہ فاصلہ جو دکھ رہا تھا

جہازی قافلہ ڈوبا تھا پہلے
سمندر بعد میں اوپر اٹھا تھا

زمین و آسماں ساکت پڑے تھے
مرے کمرے کا پنکھا چل رہا تھا

اسے بھی عشق کی عادت نہیں تھی
مرا بھی پہلا پہلا تجربہ تھا

مجھے جب تک تلاشا روشنی نے
میں پورا تیرگی کا ہو چکا تھا