بلائے جاں مجھے ہر ایک خوش جمال ہوا
چھری جو تیز ہوئی پہلے میں حلال ہوا
گرو ہوا تو اسے چھوٹنا محال ہوا
دل غریب مرا مفلسوں کا مال ہوا
کمی نہیں تری درگاہ میں کسی شے کی
وہی ملا ہے جو محتاج کا سوال ہوا
دکھا کے چہرۂ روشن وہ کہتے ہیں سر شام
وہ آفتاب نہیں ہے جسے زوال ہوا
دکھا نہ دل کو صنم اتحاد رکھتا ہوں
مجھے ملال ہوا تو تجھے ملال ہوا
بجھایا آنکھوں نے وہ رخ تلاش مضموں میں
خیال یار مرا شعر کا خیال ہوا
ترے شہید کے جیب کفن میں اے قاتل
گلال سے بھی ہے رنگ عبیر لال ہوا
بلند خاک نشینی نے قدر کی میری
عروج مجھ کو ہوا جب کہ پائمال ہوا
غضب میں یار کے شان کرم نظر آئی
بنایا سرو چراغاں جسے نہال ہوا
یقیں ہے دیکھتے صوفی تو دم نکل جاتا
ہمارے وجد کے عالم میں ہے جو حال ہوا
وہ ناتواں تھا ارادہ کیا جو کھانے کا
غم فراق کے دانتوں میں میں خلال ہوا
کیا ہے زار یہ تیری کمر کے سودے نے
پڑا جو عکس مرا آئینہ میں بال ہوا
دکھانی تھی نہ تمہیں چشم سرمگیں اپنی
نگاہ ناز سے وحشت زدہ غزال ہوا
دہان یار کے بوسہ کی دل نے رغبت کی
خیال خام کیا طالب محال ہوا
رہا بہار و خزاں میں یہ حال سودے کا
بڑھا تو زلف ہوا گھٹ گیا تو خال ہوا
جنوں میں عالم طفلی کی بادشاہت کی
کھلونا آنکھوں میں اپنی ہر اک غزال ہوا
سنا جمیل بھی تیرا جو نام اے محبوب
ہزار جان سے دل بندۂ جمال ہوا
لکھا ہے عاشقوں میں اپنے تو نے جس کا نام
پھر اس کا چہرہ نہیں عمر بھر بحال ہوا
گنہ کسی نے کیا تھرتھرایا دل اپنا
عرق عرق ہوئے ہم جس کو انفعال ہوا
ترے دہان و کمر کا جو ذکر آیا یار
گمان و وہم کو کیا کیا نہ احتمال ہوا
کمال کون سا ہے وہ جسے زوال نہیں
ہزار شکر کہ مجھ کو نہ کچھ کمال ہوا
تمہاری ابرو کج کا تھا دوج کا دھوکا
سیاہ ہوتا اگر عید کا ہلال ہوا
دیا جو رنج ترے عشق نے تو راحت تھی
فراق تلخ تو شیریں مجھے وصال ہوا
وہی ہے لوح شکست طلسم جسم آتشؔ
جب اعتدال ناصر میں اختلال ہوا
غزل
بلائے جاں مجھے ہر ایک خوش جمال ہوا
حیدر علی آتش