بخت کیا جانے بھلا یا کہ برا ہوتا ہے
کیف و غم ظرف کے لائق ہی عطا ہوتا ہے
یہ وہ بازار کشاکش ہے جہاں پر انساں
حسب توفیق خریدار حیا ہوتا ہے
مدتوں رہتا ہے جب آدمی زحمت بہ کنار
راز سر بستہ محاکات کا وا ہوتا ہے
دل ہے دوزخ میں کچھ اس طرح تبسم بر لب
جیسے کانٹوں میں کوئی پھول کھلا ہوتا ہے
بے طلب روز عطا کرتا ہے کانٹوں کو لہو
کتنا ایثار پسند آبلہ پا ہوتا ہے
سب کو پیراہن گل کی ہے تمنا لیکن
ہر نفس عیش کا پیغام قضا ہوتا ہے
آتش بطن میں گل جاتے ہیں خود کام شیوخ
صاحب درد پرستار خدا ہوتا ہے
تیری رحمت سے ہے محفوظ عن الشر بندہ
ورنہ انسان تو تصویر خطا ہوتا ہے
پہلو ذرہ میں پنہاں ہے جہان معنی
ریشۂ سنگ میں آئینہ سرا ہوتا ہے
عین غربت میں نکھرتا ہے خودی کا جوہر
نخل اوصاف لہو پی کے ہرا ہوتا ہے
صبر کی شاخ میں لگتا ہے وہ میٹھا میوہ
سب سے دنیا میں الگ جس کا مزا ہوتا ہے
ہم فقیروں کو سہارے کی ضرورت کیا ہے
بے سہاروں کا سہارا تو خدا ہوتا ہے
تیرا ہر شعر ہے ببیاکؔ عمل کی دعوت
یا کوئی موسی عمراں کا عصا ہوتا ہے
غزل
بخت کیا جانے بھلا یا کہ برا ہوتا ہے
بیباک بھوجپوری