بخت جاگے تو جہاں دیدہ سی ہو جاتی ہے
شخصیت اور بھی سنجیدہ سی ہو جاتی ہے
گو ہمہ وقت نئی لگتی ہے دنیا لیکن
شے پرانی ہو تو بوسیدہ سی ہو جاتی ہے
کون ہے وہ کہ جسے موند لوں آنکھیں دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو پوشیدہ سی ہو جاتی ہے
کھیل ہی کھیل میں لڑکی وہ شرارت والی
بات ہی بات میں سنجیدہ سی ہو جاتی ہے
میں وہ آزر نہ تراشوں کوئی مورت لیکن
جس کو چھو لوں وہ تراشیدہ سی ہو جاتی ہے
یاد آتے ہیں مجھے میرؔ کے اشعار ظفرؔ
جب طبیعت مری رنجیدہ سی ہو جاتی ہے
غزل
بخت جاگے تو جہاں دیدہ سی ہو جاتی ہے
ظفر کلیم