بخشی ہے کیف عشق نے وہ بے خودی مجھے
میں زندگی کو بھول گیا زندگی مجھے
دور فلک پہ جب کبھی آئی ہنسی مجھے
آلام روزگار نے آواز دی مجھے
تیرے خیال سے ہے وہ دل بستگی مجھے
حسرت ہی اب نہیں ترے دیدار کی مجھے
اے مرگ عشق تیری نوازش کا شکریہ
دنیا کی تلخیوں سے فراغت ملی مجھے
ہر شے سے بے نیاز ہے میرا دل حزیں
تم کیا ملے کہ مل گئے کونین بھی مجھے
کل تک جو تیغ تشنۂ خون عدو رہی
آج اس کی پیاس خود ہی بجھانی پڑی مجھے
فیضان وارثی سے عزیزؔ جہاں ہوں میں
سب کچھ ہے ایک سلسلۂ وارثی مجھے
غزل
بخشی ہے کیف عشق نے وہ بے خودی مجھے
عزیز وارثی