بجتے ہوئے گھنگھرو تھے اڑتی ہوئی تانیں تھیں
پہلے انہی گلیوں میں نغموں کی دکانیں تھیں
یوں بیٹھ رہیں دل میں شوریدہ تمنائیں
گویا کسی جنگل میں پتوں کی اڑانیں تھیں
یا رب مرے ہاتھوں میں تیشہ بھی دیا ہوتا
ہر منزل ہستی میں جب اتنی چٹانیں تھیں
وہ لمحۂ لرزاں بھی دیکھا ہے سر محفل
اک شعلہ کی مٹھی میں پروانوں کی جانیں تھیں
ہم مرحلۂ غم میں تنہا تھے کہاں یارو
قاتل تھے صلیبیں تھیں تیغیں تھی سنانیں تھیں
اک حرف محبت یوں پھیلا کہ گنہ ٹھہرا
افسانے ہمارے تھے دنیا کی زبانیں تھیں
غزل
بجتے ہوئے گھنگھرو تھے اڑتی ہوئی تانیں تھیں
قیصر الجعفری