EN हिंदी
بجا کہ کشتی ہے پارہ پارہ تھپیڑے طوفاں کے کھا رہا ہوں | شیح شیری
baja ki kashti hai para para thapeDe tufan ke kha raha hun

غزل

بجا کہ کشتی ہے پارہ پارہ تھپیڑے طوفاں کے کھا رہا ہوں

عارف عبدالمتین

;

بجا کہ کشتی ہے پارہ پارہ تھپیڑے طوفاں کے کھا رہا ہوں
مگر یہ اعزاز کم نہیں ہے کہ آپ ہی اپنا ناخدا ہوں

کبھی تو میں نے دھنک دیے ہیں پہاڑ بھی اپنے راستے کے
کبھی میں خود اپنے راستے کی مہیب دیواریں ہو گیا ہوں

مجھے ہے شب خوں کی فکر لیکن انہیں ہلاکت کا ڈر نہیں ہے
مرے قبیلے کے لوگ سوتے ہیں اور شب بھر میں جاگتا ہوں

مری حقیقت تضاد کی اس گرہ کے کھلنے پہ منحصر ہے
میں وقت کا ہوں جلیل خسرو میں عہد کا بے نوا گدا ہوں

یہ بات الگ ہے کہ غنچہ غنچہ مرے چلن سے چٹک رہا ہے
صبا کا جھونکا ہوں گلستاں سے میں بے صدا سا گزر رہا ہوں

جہاں کا شیوہ ستم تھا لیکن مجھے وفا سے رہی ہے نسبت
جہاں غلط تھا کہ میں غلط تھا یہ بات رہ رہ کے سوچتا ہوں

مری جبیں کا چمکتا سورج مرے جلو میں سدا رہا ہے
میں رات کی ظلمتوں کو عارفؔ ازل سے للکارتا رہا ہوں