بجا کہ ہے پاس حشر ہم کو کریں گے پاس شباب پہلے
حساب ہوتا رہے گا یا رب ہمیں منگا دے شراب پہلے
فضائے شب ہنس کے جگمگائی وہ نازنیں صبح بن کے آئی
ہوا ہے روشن مرے شبستاں میں چاند سے آفتاب پہلے
زباں پہ آیا نہ حرف مطلب کہ کہہ گئیں کچھ شریر نظریں
سوال کرنے نہ پائے ہیں ہم کہ مل گیا ہے جواب پہلے
جناں میں پہلے پیے گا تو لڑکھڑاتا پھرے گا زاہد
سرور کوثر کی ہے اگر دھن جہاں میں پی لے شراب پہلے
ہے خسرو عشق کا یہ فرماں کہ دل لگانا نہیں ہے آساں
جسے ہو کوئے بتاں کا ارماں وہ کو بہ کو ہو خراب پہلے
غم و الم رنج و یاس و حسرت اٹھاؤں گا سب کے رخ سے پردے
تمہیں قسم ہے دل حزیں کی اٹھاؤ تو تم نقاب پہلے
الٰہی وہ بوئے پیرہن سے بھی پہلے ہو ہمکنار آ کر
چمن میں ہوتا ہے جلوہ افروز پھول سے ماہتاب پہلے
یہ کس کے رنگ رخ بہاریں نے بخش دی ہے طراوت نو
شگفتہ ہوتا نہ تھا گلستاں میں اس ادا سے گلاب پہلے
نگاہ ساقی کی مسکرائی کہا جب اخترؔ نے اپنی دھن میں
پئیں گے پیتے رہیں گے مے کش مگر یہ خانہ خراب پہلے
غزل
بجا کہ ہے پاس حشر ہم کو کریں گے پاس شباب پہلے
اختر شیرانی