بجا کہ درپئے آزار چشم تر ہے بہت
پلٹ کے آؤں گا میں گرچہ یہ سفر ہے بہت
ٹھہر سکو تو ٹھہر جاؤ میرے پہلو میں
وہ دھوپ ہے کہ یہی سایۂ شجر ہے بہت
دریدہ باہیں خزاں میں پکارتی ہیں چلو
ہوائے تند میں ہر شاخ بے سپر ہے بہت
کہوں تو وہ مری روداد درد بھی نہ سنے
کہ جیسے اس کو مرے حال کی خبر ہے بہت
کلی خمار کے عالم میں کسمساتی ہے
کھلی ہے آنکھ مگر نیند کا اثر ہے بہت
مرا قدم ہی نہیں ہجر میں بگولہ صفت
بچھڑ کے مجھ سے ترا غم بھی در بدر ہے بہت
ہیں منتظر کہ یہ دریائے درد کب اترے
ہیں خوش کہ دل کا سفینہ تو موج پر ہے بہت
نہ خلوت غم دنیا نہ بزم جاں توصیفؔ
تمہارے واسطے اک بیکسی کا گھر ہے بہت
غزل
بجا کہ درپئے آزار چشم تر ہے بہت
توصیف تبسم