بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے
اک ہم تھے تیری بزم میں آنسو پیے ہوئے
دیکھا جسے بھی اس کی محبت میں مست تھا
جیسے تمام شہر ہو دارو پیے ہوئے
تکرار بے سبب تو نہ تھی رند و شیخ میں
کرتے بھی کیا شراب تھے ہر دو پیے ہوئے
پھر کیا عجب کہ لوگ بنا لیں کہانیاں
کچھ میں نشے میں چور تھا کچھ تو پیے ہوئے
یوں ان لبوں کے مس سے معطر ہوں جس طرح
وہ نو بہار ناز تھا خوشبو پیے ہوئے
یوں ہو اگر فرازؔ تو تصویر کیا بنے
اک شام اس کے ساتھ لب جو پیے ہوئے
غزل
بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے
احمد فراز