EN हिंदी
بیٹھے رہیں گے تھام کے کب تک یوں خالی پیمانے لوگ | شیح شیری
baiThe rahenge tham ke kab tak yun Khaali paimane log

غزل

بیٹھے رہیں گے تھام کے کب تک یوں خالی پیمانے لوگ

سید شکیل دسنوی

;

بیٹھے رہیں گے تھام کے کب تک یوں خالی پیمانے لوگ
حد سے بڑھے جب تشنہ لبی تو پھونک نہ دیں میخانے لوگ

ہم دنیا کو دے کر خوشیاں غم بدلے میں لیتے ہیں
ڈھونڈے سے بھی اب نہ ملیں گے ہم جیسے دیوانے لوگ

کیا جانیں یوں دل کے کتنے زخم ہرے ہو جاتے ہیں
چھیڑ کے بات اک ہرجائی کی آتے ہیں سمجھانے لوگ

اک شاعر دیوانہ سا کیوں نگری نگری پھرتا ہے
آئے یا نہ سمجھ میں آئے گڑھتے ہیں افسانے لوگ

دل پر کتنے زخم لگے ہیں تب جا کر یہ جانا ہے
اپنوں سے تو اچھے ہیں ہر صورت یہ بیگانے لوگ