بیٹھے ہیں سنہری کشتی میں اور سامنے نیلا پانی ہے
وہ ہنستی آنکھیں پوچھتی ہیں یہ کتنا گہرا پانی ہے
بیتاب ہوا کے جھونکوں کی فریاد سنے تو کون سنے
موجوں پہ تڑپتی کشتی ہے اور گونگا بہرا پانی ہے
ہر موج میں گریاں رہتا ہے گرداب میں رقصاں رہتا ہے
بیتاب بھی ہے بے خواب بھی ہے یہ کیسا زندہ پانی ہے
بستی کے گھروں کو کیا دیکھے بنیاد کی حرمت کیا جانے
سیلاب کا شکوہ کون کرے سیلاب تو اندھا پانی ہے
اس بستی میں اس دھرتی پر سیرابیٔ جاں کا حال نہ پوچھ
یاں آنکھوں آنکھوں آنسو ہیں اور دریا دریا پانی ہے
یہ راز سمجھ میں کب آتا آنکھوں کی نمی سے سمجھا ہوں
اس گرد و غبار کی دنیا میں ہر چیز سے سچا پانی ہے
غزل
بیٹھے ہیں سنہری کشتی میں اور سامنے نیلا پانی ہے
سلیم احمد