بیٹھے ہیں جہاں ساقی پیمانۂ زر لے کر
اس بزم سے اٹھ آئے ہم دیدۂ تر لے کر
یادوں سے تری روشن محراب شب ہجراں
ڈھونڈھیں گے تجھے کب تک قندیل قمر لے کر
کیا حسن ہے دنیا میں کیا لطف ہے جینے میں
دیکھے تو کوئی میرا انداز نظر لے کر
ہوتی ہے زمانے میں کس طرح پذیرائی
نکلو تو ذرا گھر سے اک ذوق سفر لے کر
راہیں چمک اٹھیں گی خورشید کی مشعل سے
ہم راہ صبا ہوگی خوشبوئے سحر لے کر
مخمل سی بچھا دیں گے قدموں کے تلے ساحل
دریا ابل آئیں گے صد موج گہر لے کر
پنہائیں گے تاج اپنا پیڑوں کے گھنے سائے
نکلیں گے شجر اپنے خوش رنگ ثمر لے کر
لپکیں گے گلے ملنے سرو اور صنوبر سب
اٹھیں گے گلستاں بھی شاخ گل تر لے کر
ہنستے ہوئے شہروں کی آواز بلائے گی
لب جام کے چمکیں گے سو شعلۂ تر لے کر
افلاک بجائیں گے ساز اپنے ستاروں کا
گائیں گے بہت لمحے انفاس شرر لے کر
یہ عالم خاکی اک سیارۂ روشن ہے
افلاک سے ٹکرا دو تقدیر بشر لے کر
غزل
بیٹھے ہیں جہاں ساقی پیمانۂ زر لے کر
علی سردار جعفری